شادی بیاہ کی سج دھج تو ان سے ہے
سردیاں کیا رخصت ہوئیں،کہیں کسی کی مہندی کی تقریب ہو رہی ہے تو کہیں کسی کی شادی۔اس موسم کو شادی کا سیزن کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔شادی کے موقع پر ہر ایک کی نظر دلہن پر مرکوز ہوتی ہے۔دلہن کی جلد،دلہن کے کپڑے،دلہن کی مہندی اور دلہن کا ہیئر اسٹائل کئی روز تک لوگوں کی گفتگو کا موضوع بن جاتا ہے۔ایسے موقعوں پر کزنز اور سکھیاں دنوں بعد ملتی ہیں لہٰذا باتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں،کبھی موسم کا ذکر،کبھی حالات کا،کبھی ذاتی زندگی،کبھی دوسروں کی باتیں۔
بس باتیں ہی باتیں۔لیکن ان کا جو محبوب و مرغوب موضوع ہوتا ہے وہ فیشن ہے۔کیا ان ہے اور کیا آؤٹ۔موسم بہار کیلئے کس برینڈ کے ڈیزائن بہتر ہیں اور کون سا برینڈ اپنا معیار برقرار نہیں رکھ سکا۔
پھر شادیوں کا سیزن بھی تو ہے۔کس کی شادی پہ کس کی ڈریسنگ شاندار تھی اور آنے والی شادیوں میں کیا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے ہیں۔یہ باتیں اگر چائے کی پیالی پہ ہوں تو کیا کہنے!کھانے کی دعوت پہ ہوں تو ویسے ہی مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
پھر سیلفیاں اور تصویریں بنانا۔اس کے بغیر تو دعوت ادھوری ہی سمجھیں۔موسم بدلتے ہی شادیوں کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔دلہن تو دلہن شادی بیاہ میں شرکت کرنے والی خواتین کے ملبوسات کی مانگ اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
دراصل شادی ایک ایسا فنکشن ہے جس کے لئے ہر عورت چاہتی ہے کہ وہ اس دن سب سے منفرد اور سب میں نمایاں نظر آئے،رشتے داروں اور دوست احباب کے سامنے اس کا وقار مزید ہو۔
ایسے میں خواتین کی تیاریاں عروج پر پہنچی ہوتی ہیں۔آج کل شادی بیاہ کے لئے غرارہ سب کی اولین ترجیح ہے۔بازاروں کا رخ کریں تو خواتین خوشنما رنگوں کے غراروں کی خریداری میں مگن نظر آتی ہیں۔غرارے کا انتخاب دلہن اور اس کی کزنز اکثر مہندی اور مایوں کی تقریب کے لئے کرتی ہیں لیکن رنگوں کا انتخاب انہیں مشکل میں ڈال دیتا ہے۔اس سلسلے میں سیلیبرٹیز کے اسٹائل کو دیکھا جا سکتا ہے۔
لہنگے کے اسٹائل کو منتخب کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔اچھی طرح ڈیزائن کیا ہوا اور دیدہ زیب کڑھائی والا غرارہ نہ صرف مہندی مایوں بلکہ بارات اور ولیمہ کی تقریبات میں بھی آپ کے حسن کو چار چاند لگا سکتا ہے۔
پاکستان میں عروسی ملبوسات کے بتدریج تبدیل ہوتے فیشن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں کی شادیوں کی تقریبات کی ترتیب کو سمجھا جائے۔
ویسے تو ہمارے یہاں شادی کی تقریبات کی تعداد کی کوئی حد مقرر نہیں لیکن روایتی طور پر ایک شادی تین دن پر مشتمل ہوتی ہیں جن میں مایوں یا مہندی،بارات (جو سب سے اہم دن ہوتا ہے) اور ولیمہ جو کہ دولہا کے گھر والوں کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ہماری یہاں دلہنیں شروع سے ہی اپنے عروسی ملبوسات کے لئے ساڑھی یا غرارے اور اس کی مختلف اشکال میں سے انتخاب کرتی رہی ہیں جن میں بارات والے دن کے لئے غرارہ اور ولیمے والے دن کے لئے ساڑھی پسند کی جاتی تھی یا ہے۔
دراصل ساڑھی 1971ء تک ہماری دلہنوں کا مقبول انتخاب تھا کیونکہ اس وقت تک ہمارے فیشن پر ہندوستان اور بنگال کا اثر نمایاں تھا۔لیکن آج کا برائیڈل ویئر ماضی کے مقابلے میں خاصی جدت اختیار کر چکا ہے۔ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔آج جو فیشن ہے یقینا دس برس بعد اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہر بیس سال کے بعد فیشن خود کو دہراتا ہے۔
جہاں تک ماضی کے عروسی ملبوسات تو ستر کی دہائی میں روایتی ملبوسات پہنے جاتے تھے اور ایک ہی رنگ یعنی سرخ ہوتا تھا اور اس پر نقشی گوٹے اور ستارے کا کام ہوتا تھا۔اسی کی دہائی میں ماڈرن ازم پاکستان میں متعارف ہونے لگا تھا تو اس وقت فیشن میں تھوڑی تبدیلی آئی اور عروسی جوڑے پر مختلف رنگوں کی پٹیاں سجائی جانے لگیں۔نقشہ،دبکہ،ریشم اور شیشے کا کام شروع ہوا جو بے حد مقبول ہوا۔
اگلی دہائی میں خواتین فیشن کے معاملے میں زیادہ باشعور ہو گئی تھیں۔اس وقت دبکہ،ستارہ،وسلی (باریک تار کا کام) کلر کنٹراس اور مختلف قسم کے زیورات کے موتیوں کی مدد سے جوڑے تیار کرنا شروع کیے گئے۔اسی زمانے میں نگینہ جسے اسٹون کہتے ہیں وہ بھی عروسی ملبوسات میں استعمال ہونے لگا۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے اب تک دلہن کے لباس میں بہت جدت آ گئی ہے۔
آج موتی،دھاگہ،دبکہ،کت دانہ،ستارا اور اسٹونز اور دیگر چیزوں کی مدد سے دلہن کا عروسی جوڑا تیار کیا جاتا ہے۔آج کل دو طرح کے عروسی ملبوسات بہت مقبول ہیں،ایک روایتی اور دوسرا گاؤنز اور میکسی وغیرہ۔روایتی عروسی لباس عموماً بارات والے دن جب کہ میکسی اور گاؤن ولیمے پہ زیب تن کیا جاتا ہے۔آج سے تیس سال قبل دلہن کے لباس میں نقشی،دبکہ اور بڑے موتیوں جب کہ دوپٹے کے چاروں اطراف بھرا ہوا کام کیا جاتا تھا۔
یہی کام آج کل پھر سے عروسی جوڑے کی زینت بنا ہوا ہے۔جہاں تک برائیڈل ویئر میں رنگوں کی بات ہے تو پہلے وقتوں میں عروسی جوڑا صرف سرخ رنگ کا ہی تیار ہوتا تھا،اب تو بارات کے دن سرخ،فیروزی،سبزی مائل،گلابی،نیلا اور دوسرے رنگوں کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں۔لمبی اور چھوٹی دونوں طرح کی قمیضوں کا فیشن چل رہا ہے۔قمیضوں کے علاوہ بڑے گھیر کے فراک،کونوں والی قمیضیں اور اسکرٹس بھی لہنگوں کے ساتھ پسند کی جاتی ہیں۔
دو سے زائد شوخ رنگوں کے ساتھ ڈیزائیننگ کی جا رہی ہے۔
مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیضوں کا استعمال لہنگوں شراروں کے ساتھ بلاشبہ ایک نیا تجربہ ہے۔لہنگے اور غراروں کے ساتھ لمبے گاؤن اور اس پر خوبصورت کام بھی خواتین میں بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔رنگ کوئی بھی ہو عروسی جوڑے میں سب ہی رنگ اچھے لگتے ہیں لیکن لڑکیاں اس موقع پر سرخ رنگ کو آج بھی دیگر رنگوں پر ترجیح دیتی ہیں۔
ویسے بھی رواں سال کا رنگ اُجلا قرمزی،سرخی مائل آتشی ہے تو اس رنگ کے عروسی جوڑے فیشن میں ”ان“ رہیں گے۔آپ سرخ رنگ میں دوسرے رنگ ملا کر جوڑے کی خوبصورتی کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔لیکن لباس کی زمین لال رنگ ہی کی ہونی چاہیے کیونکہ لال رنگ خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب ایک لڑکی اپنی نئی زندگی شروع کرتی ہے تو اسے ایسے ہی رنگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو خوشی کا احساس بخشتے ہوں۔
عروسی لباس دلہن کے لئے آنے والے والی زندگی کا رنگ لئے ہوتا ہے۔ہمارے خطے کی مخصوص ثقافت میں دلہن کے لئے سرخ لباس مستقبل کی خوشیوں کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔لیکن اب خواتین دیگر رنگوں کو بھی اپنا رہی ہیں۔خاص طور پر پیازی اور انّابی رنگ۔کچھ خواتین ہلکے کام والے ملبوسات پر نگاہ ہی نہیں ڈالتیں۔عموماً تمام ہی خواتین یہ چاہتی ہیں کہ ان کا لباس مختلف اور منفرد ہو۔اسٹائل میں بھی اور کوالٹی میں بھی۔