پرانے وقتوں کی بات ہے کہ راجیت پور گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی۔جس کا نام رخسانہ تھا۔اس عورت کا ایک بیٹا تھا۔جس کا نام اسد تھا۔اور وہ بہت ہی خوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔کہ اچانک ایک دن رخسانہ کا خاوند ایک حادثے میں فوت ہو گیا۔
اس وقت اسد 6سال کا تھا۔رخسانہ کا خاوند ان دونوں ماں بیٹے کے لئے روزی کمانے کا ذریعہ تھا۔
لیکن اب رخسانہ اور اس کا بیٹا دونوں مفلسی کی زندگی گزارنے لگے۔رخسانہ اپنے بیٹے کو اچھا،کامیاب شخص بنانا چاہتی تھی۔اس لئے اس نے خود محنت مزدوری کرنا شروع کر دی۔
اُس نے اسد کا داخلہ ایک بہت ہی اچھے سکول میں کروایا۔پھر وقت گزرتا گیا اور بیس سال کے بعد اُس کا بیٹا اسد ایک کامیاب انجینئر بن گیا۔اب ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔اور اس عورت نے اپنے بیٹے کی شادی بھی کر دی۔شادی کے بعد اسد پہلے جیسا نہ رہا۔
اسد نے اپنی ماں سے برا سلوک کرنا شروع کر دیا۔
اب رخسانہ کافی بوڑھی ہو چکی تھی اور اسد نے اس کا صحیح سے خیال نہ رکھا۔وہ نہ ہی اسے وقت دیتا اور نہ ہی اس کی صحت کی پرواہ کرتا۔ایسا لگتا تھا کہ اسد اپنی ماں کی تمام قربانیوں کو بھلا چکا تھا۔
رخسانہ اب بڑھاپے کی وجہ سے بیمار رہنے لگی۔اور گھر میں اس کادم گھٹنے لگا۔ایک دن اُس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ مجھے کہیں باہر لے جاؤ تو اسد نے انکار کر دیا۔رخسانہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا یہ میری آخری خواہش ہی سمجھ کر مان لو۔
اس پر اسد رضا مند ہو گیا۔پھر وہ اپنی ماں اور بیوی کو فارم ہاؤس لے گیا وہاں پہنچ کر رخسانہ بہت تھک گئی۔اُس نے اپنے بیٹے کو پاؤں دبانے کے لئے بولا تو اسد نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ اماں میرے پاس وقت نہیں ہے۔
رات کا ایک پہر تھا اور رخسانہ کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔
اس نے اپنے بیٹے کو آوازیں دیں مگر اس کے بیٹے نے نیند میں سنی ان سنی کردیں۔رخسانہ مر گئی ۔اور اسد کو خبر تک نہ ہوئی۔اتنے میں اسد کی بیوی آوازیں دیتی ہے کہ میرے سر میں بہت درد ہورہا ہے۔اسد فوراً بھاگ کر گیا اور اس کے سر کو دبانے لگا۔
اسی لمحے وہ دیکھتا ہے کہ کمرے میں باہر کی طرف بہت ہی تیز روشنی دکھائی دے رہی ہے۔اور پھر وہ روشنی مختلف اطراف بٹ جاتی ہے۔اسد دیکھتاہے کہ صحن میں ایک بہت خوبصورت لڑکی اپنے ہاتھ میں سونے کا برتن لئے کھڑی ہے ۔اسد نے کہا تم کون ہو اور یہاں پر کیا کررہی ہو۔
لڑکی نے کہا میں سنہری پری ہوں اور جو بھی اس دنیا میں اچھے کام کرتاہے میں اللہ کے حکم سے اس کو انعام دیتی ہوں۔اور برے اعمال کرنے والے کو سزا۔پری نے کہا کہ اسد تم نے ماں کی خدمت کرنے میں غفلت کی ہے۔کیا تمہیں اپنی ماں کی تمام قربانیاں یاد نہیں ہیں اور اب تم ان کی کبھی خدمت نہ کر سکو گے۔
کیونکہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔اور تم کو معافی مانگنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔اب تم پوری زندگی خود کو کوستے رہو گے۔اسد کو پری کی کہی بات پر یقین نہ آیا اور وہ اپنی جگہ جا کر سو گیا۔اسد نے صبح اٹھ کر ماں کو جگایا تو وہ مر چکی تھی۔
اس نے سوچا کہ پری ٹھیک کہہ رہی تھی۔اسد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔
اور اب اس کو کہیں سکون نہ آتا۔اس واقعے کے دس دن بعد پری دوبارہ اس کے خواب میں آئی اور کہا کہ تم خوش قسمت ہو۔اسد تمہاری ماں نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۔
اور یاد رکھو،زندگی میں کبھی موقع ملے تو دوسروں کی خدمت کرنا۔اسد اپنی ماں کو ہر وقت یاد کرتا رہتا اور خود کو کوستا رہتا کہ میری ماں کتنی رحم دل عور ت تھی کہ اس نے مجھے معاف کر دیا۔کوئی بھی والدین اپنی اولاد کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتا۔دوستو !یاد رکھو کے والدین کی خدمات سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے۔اور اپنی آنکھوں کو کھول لو اس سے پہلے کہ تمہارے ماں باپ کی آنکھیں بند ہو جائیں ۔والدین کی خدمت ایک عبادت ہے۔