0

بندر اور فوجی

بندر میاں پانی بھرتے کے بھرتے رہ گئے اور شہاب میاں اپنی چھاؤنی پہنچ گئے

شہاب بہت نیک دل اور ہمدرد فوجی جوان تھا۔ایک مرتبہ وہ چھٹیاں گزارنے اپنے گاؤں جا رہا تھا۔راستے میں ایک جنگل تھا۔وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک کانٹے دار جھاڑی پر پڑی،جو زور زور سے ہل رہی تھی۔
وہ اپنے گھوڑے سے اُتر گیا اور تلوار نکال کر للکارا:”کون ہے وہاں؟سامنے آؤ،ورنہ میں ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔“کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے پھر اپنے الفاظ دہرائے اور دوسری طرف سے گھوم کر جھاڑی کے سامنے آ گیا۔

جھاڑی میں ایک بندر تھا،جو بُری طرح سے کانٹوں میں اُلجھ کر پھنسا ہوا تھا اور وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
بندر نے جب ایک انسان کو دیکھا تو سہم کر خاموش ہو گیا اور ڈر کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔شہاب نے اپنی تلوار سے جھاڑیاں کاٹنا شروع کریں اور وہ بندر تک پہنچ گیا۔

اس نے بندر کو وہاں سے نکال لیا۔بندر اب بھی ڈرا ہوا تھا۔شہاب نے اپنے تھیلے میں سے کچھ جڑی بوٹیاں نکال کر اور ان کا لیپ بنا کر بندر کے زخموں پر لگایا اور اسے چھوڑ کر آگے روانہ ہو گیا۔

وہ کچھ دور ہی چلا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی:”رکو،مہربان!“
اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو وہی بندر پیچھے آ رہا تھا،جس کی اس نے جان بچائی تھی۔
”بندر بولا:”میں تمہارا احسان مند ہوں۔میں سمجھا کہ تم کوئی ظالم شکاری ہو،لیکن تم ایک رحم دل انسان ہو۔
اب میں تمہارے ساتھ رہوں گا اور تمہارے سارے کام کیا کروں گا۔“
شہاب نے کہا:”تمہارا اور میرا ساتھ ممکن نہیں۔میں ایک فوجی ہوں،چھٹی پہ اپنے گاؤں جا رہا ہوں۔تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم اس جنگل میں آزادی سے رہو۔“
مگر بندر نہ مانا اور شہاب کے پیچھے چلنے لگا۔

بندر میں عجیب عادت تھی کہ وہ سکون سے نہیں بیٹھتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر وقت اپنے محسن کی خدمت میں لگا رہے۔شہاب اسے مختلف بہانوں سے ٹالتا رہا۔آخر وہ اپنے گاؤں پہنچ گیا۔شہاب کی ماں اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اسے گلے لگا کر بولی:”بہت دنوں بعد آئے ہو۔
اب جلدی نہیں جانے دوں گی اور خوب کھلا پلا کر افضل حلوائی کے لڑکے کی طرح موٹا کر دوں گی۔“
شہاب ہنسنے لگا اور کہا:”اماں!تم بھی بہت بھولی ہو،اگر میں موٹا ہو گیا تو دشمن سے کیسے لڑوں گا اور فوج سے بھی نکال دیا جاؤں گا۔

ابھی دونوں ماں بیٹے باتیں ہی کر رہے تھے کہ بندر جو باہر رہ گیا تھا،دیوار کے اوپر سے چڑھ کر اندر کود گیا۔
اماں نے شور مچا دیا:”ارے،یہ بندر کہاں سے ہمارے گھر میں گھس آیا۔شہاب!تلوار نکالو اور اس کم بخت کو یہاں سے بھگاؤ۔

”اماں!یہ بندر میرے ساتھ ہے۔“
میں حیرت سے بولی”تم فوج میں ہو یا کسی سرکس میں کام کرتے ہو،جو یہ بندر ساتھ لیے گھوم رہے ہو۔تمہارے باپ دادا فوجی تھے اور انھوں نے اپنی جانیں ملک کے لئے قربان کر دیں اور تم مداری بن گئے۔

شہاب نے پوری بات اماں کو بتائی کہ کس طرح یہ بندر اس کے ساتھ آ گیا۔
ماں نے کہا:”خیر یہ تو تم نے اچھا کام کیا۔اب تم آرام کرو۔میں تمہارے لئے پراٹھے بناتی ہوں۔“
بندر بھی دیوار سے اُتر کر شہاب کے پاس آ گیا اور بولا:”مجھے کوئی کام بتاؤ،میں تمہاری خدمت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

شہاب نے اس سے جان چھڑانے کے لئے کہا:”جاؤ،اچھا میرے لئے پھل لے آؤ۔“
بندر دیوار پھاند کر باہر نکل گیا۔
اماں پراٹھے بنا کر لے آئیں اور پوچھا:”ارے،وہ بندر کہاں گیا؟“
”اماں!وہ ہر وقت کام کا پوچھتا رہتا ہے۔
میں نے اسے کام سے بھیج دیا۔اب شاید نہ آئے۔“
ابھی وہ یہ بات کر ہی رہا تھا کہ بندر دیوار سے کود کر چھت پر چڑھ گیا۔باہر کسی کے دروازہ پیٹنے کی آواز آئی۔
”کون ہے،کیا آفت آ گئی جو دروازہ پیٹ رہے ہو۔“اماں نے بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے چاچا سکندر پھل والا کھڑا تھا:”ارے بہن!ذرا مجھے اپنی چھت پر تو جانے دو۔
ایک نامعقول بندر میرے ٹھیلے سے کیلے کا پورا خدشہ لے کر بھاگ گیا اور تمہاری چھت پر چڑھا ہوا ہے۔“
”ارے سکندر!تیرا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا،جو جانور پر چوری کا الزام لگاتا ہے۔“
شہاب بھی شور سن کر دروازے پر آ گیا اور بولا:”چاچا سکندر!یہ میرا بندر ہے۔
ذرا شریر ہے!اسے معاف کر دو اور کیلے کے پیسے میں تمہیں دے دیتا ہوں۔“

”ارے میاں سپاہی!تم کب آئے؟“سکندر،شہاب کو دیکھ کر بندر کو بھول گیا۔وہ شہاب کی عزت کرتا تھا۔وہ اَن پڑھ دیہاتی تھا۔شہاب نے پچھلے برس پٹواری سے اس کے قرض کا حساب کتاب صحیح کروایا تھا،ورنہ اس کا قرض کسی طرح اُتر ہی نہیں رہا تھا۔

”بس چاچا!چھٹیوں پر آیا ہوں اور یہ لو کیلے کے پیسے۔“
”نہیں بیٹے!مجھے شرمندہ نہ کرو،یہ تم رکھو۔“
ایک روز کھانا کھاتے ہوئے شہاب نے کہا:”اماں!اب میری چھٹیاں ختم ہو گئی ہیں،اب واپس جانا ہو گا۔“
اماں بولیں:”شہاب!کچھ دن اور رُک جاتے تو اچھا ہوتا۔

”نہیں اماں!تم تو جانتی ہو،میں ایک فوجی ہوں اور سرحدوں کی حفاظت میرا فرض ہے۔اگر میں اپنی ذمے داری پوری نہیں کروں گا تو عام لوگ کس طرح سے محفوظ زندگی گزاریں گے۔“
”تو پھر ٹھیک ہے،جانے کی تیاری کرو۔“
”ٹھیک ہے اماں!مگر اس بندر کا کیا کروں،کیسے اس سے پیچھا چھڑاؤں؟“
”تم فکر مت کرو،میں نے اس کی ترکیب سوچ لی ہے۔

تم اسے یہاں سے اپنے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ دینا،جہاں تمہیں یہ ملا تھا۔میں تمہیں پانی کا ایک برتن دوں گی۔وہاں پہنچ کر کھانے کے بہانے تم اسے جنگل سے اس برتن میں پانی لانے کو بھیجنا۔برتن میں پانی بھرے گا ہی نہیں اور اتنے میں تمہیں وہاں سے نکلنے کا موقع مل جائے گا۔
“یہ سن کر شہاب بہت خوش ہو گیا۔

اگلے دن شہاب اماں سے رخصت ہوا اور بندر کو ساتھ لے کر واپس چھاؤنی چل دیا۔راستے میں وہ جنگل آ گیا،جہاں بندر پہلی دفعہ ملا تھا۔شہاب نے اماں کی ہدایت پر عمل کیا۔تھیلے سے کھانا نکالا اور بندر کو برتن تھما کر جلد پانی لانے کو کہا۔
بندر نے برتن اُٹھایا اور پانی بھرنے چلا گیا۔برتن میں باریک باریک سوراخ تھے۔بندر میاں پانی بھرتے کے بھرتے رہ گئے اور شہاب میاں اپنی چھاؤنی پہنچ گئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں