0

سونے کا ہاتھی

صدیوں پرانی بات ہے کہ ملک یمن میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ بہت انصاف پسند اور رحمدل تھا۔ملک میں ہر طرف امن و امان تھا۔ایک دن اسے بیٹھے بٹھائے خیال آیا کہ رعایا کی خبر لینی چاہئے۔پس اس نے اعلان کروایا کہ بادشاہ کو کوئی ایسی کہانی سنائے جو اس نے کبھی نہ سنی ہو۔جو ایسی کہانی سنائے گا اسے ”سونے کا ہاتھی“ ا نعام میں دیا جائے گا۔

ملک میں اعلان ہوتے ہی لوگ جوق در جوق بادشاہ کو کہانی سنانے کی غرض سے آنے لگے۔
وہ بڑی مزے مزے کی کہانیاں سناتے۔بادشاہ سلامت کہتے۔”میں نے یہ کہانی پہلے سنی ہوئی ہے“۔لوگ تھک ہار کر لوٹ جاتے۔کہانی سنانے والوں نے چڑیا سے باز مروایا۔کبھی کچھوے کو خرگوش سے ہروایا کبھی درخت پر ہاتھی چڑھا دیا،کبھی مچھلی کو صحرا میں زندہ کروایا،دن کو الو اور چمگاڈر کی کہانیاں سنائیں۔

لیکن بادشاہ سلامت ہر ایک کو کہتے،”میں نے یہ کہانی سنی ہوئی ہے۔“
آہستہ آہستہ لوگ کم ہونے لگے۔یمن کے ایک گاؤں میں ”ارسلان“ نامی نوجوان رہتا تھا۔اس نے تمام باتیں سنیں اور ایک نئی کہانی لیکر بادشاہ کے درمیان میں پہنچ گیا۔

”ہاں بھئی جوان آپ کیا کوئی نئی کہانی لے کر آئے ہو؟“ بادشاہ نے پوچھا۔
حضور!کہانی نہیں ایک حقیقت لیکر حاضر ہوا ہوں۔ارسلان نے عاجزی سے کہا۔
”بادشاہ سلامت!آپ سے پہلے آپ کے والد محترم بادشاہ تھے۔ان سے پہلے آپ کے دادا حضور بھی بہت عظیم الشان سلطنت کے مالک تھے۔
آپ کے دادا حضور نے آپ کے والد محترم کی شادی پر سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا دیا۔جس طرح آپ کے والد اور دادا بادشاہ تھے اسی طرح میرے والد محترم اور دادا حضور بہت بڑے تاجر تھے۔آپ کے دادا نے میرے دادا سے کچھ برتن ادھار لئے تھے جن میں سونے کی سات دیگیں،پرات،پلیٹیں،چمچے اور دوسرے برتن تھے۔

شادی کے بعد آپ کے دادا برتن واپس کرنا بھول گئے۔آج کل ہمارے حالات بھی کچھ بہتر نہیں ہیں ورنہ آپ سے برتن نہ مانگتا۔شاید آپ کے والد محترم یا دادا حضور نے آپ کو بتایا ہو؟“
”میں نے یہ بات کبھی نہیں سنی۔بادشاہ نے فوراً جواب دیا۔

”اچھی بات ہے بادشاہ سلامت!آپ پھر سونے کا ہاتھی مجھے دے دیں۔“
بادشاہ ارسلان کی عقلمندی پر بہت خوش ہوا۔اگر کہتا کہ بات سنی ہوئی ہے تو اسے اتنے سونے کے برتن دینا پڑتے اس نے جلدی سے کہہ دیا:”یہ بات میں نے نہیں سنی۔“
دیکھا بچو!ارسلان نے بادشاہ سلامت سے عقلمندی سے سونے کا ہاتھی حاصل کر لیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں