آج بھیڑیا اور چیتا بہت خوش تھے۔کیونکہ بہت دن بعد انہیں میمنہ اکیلا ملا تھا۔ورنہ اس کی ماں اس کی کڑی نگرانی کرتی تھی اور ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھی۔جب انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس کی ماں دور ہے تو انہوں نے اسے کھانے کا منصوبہ بنایا۔
مگر ایک مسئلہ تھا کہ یہاں میمنے کا شکار نہیں ہو سکتا تھا۔کیونکہ اس کی آواز سن کر یہاں شیر بھی آ سکتا تھا اور دوسرے جانور بھی۔
”ہم میمنے کو سیر کے بہانے کہیں دور لے جاتے ہیں تاکہ اسے اطمینان سے کھا سکیں۔“
بھیڑیے نے چیتے سے کہا۔
”ہاں تم ٹھیک کہتے ہو“ چیتا بھیڑیے کے منصوبے سے متفق ہو گیا تو دونوں میمنے کے قریب گئے اور تب بھیڑیے نے مکاری سے کہا۔”اتنا پیارا بچہ اکیلا بور ہو رہا ہے۔آؤ ہم تمہیں دوسرے جنگل کی سیر کروائیں۔“
میمنے نے جب چیتے اور بھیڑیے کو دیکھا تو وہ ڈر گیا۔
”ڈرو نہیں بچے ہم تمہارے انکل ہیں اور تمہارا خیال بھی رکھیں گے“ چیتا مصنوعی پیار سے بولا تو میمنہ مان گیا اور ان کے ساتھ چلنے لگا۔
ادھر چیتے نے سوچا کہ کسی طرح بھیڑیے کو بھاگا کر میں اسے اکیلا ہی کھاؤں گا۔چنانچہ اس نے تھوڑی دور جا کر بھیڑیے کو زور دار ٹکر مار کر کھائی میں گرانے کی کوشش کی۔
مگر جیسے ہی چیتے نے بھیڑیے کو دھکا دیا تو بھیڑیے نے اپنے تیز اور نوکیلے پنجے اس کے جسم میں گاڑ دیئے پھر دونوں ایک دوسرے پر حملہ کرنے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں دونوں ہی گہری کھائی میں جا گرے۔میمنہ یہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ دشمن کبھی دوست نہیں ہوتا۔
اتنے میں اس کی ماں باقی جانوروں کے ساتھ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک پہنچی تو میمنہ ڈرا سہما اپنی ماں سے لپٹ گیا۔اس نے اسی وقت اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ آئندہ میں کبھی کسی کے کہنے میں نہیں آؤں گا اور کبھی اپنے گھر سے دور نہیں جاؤں گا۔یہ سُن کر اس کی ماں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔