0

آدھے سر کا درد.

آدھے سر کا درد.

آدھے سر کے درد کے بہت سے نام ہیں۔عربی میں اسے شقیقہ کہا جاتاہے۔اس مرض میں سر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتاہے۔نصف سر تندرست رہتا ہے اور نصف میں شدید درد ہوتاہے،اسی مناسبت سے اس کا نام شقیقہ(سر کو دو شقوں یا دو حصوں میں تقسیم کرنے والا)رکھا گیا ہے۔عام بول چال میں آدھا سیسی کا درد کہلاتاہے۔
لاطینی زبان میں اسے ہیمی کرینیا(HEMICRANIA)ہیمی کے معنی نصف اور کرینین کے معنی کھوپڑی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔انگریزی زبان میں یہ مائگرین(MIGRAINE)کے نام سے مشہور ہے۔
سر کے درد کی تمام قسموں میں یہ انتہائی شدید درد ہے،جو آدھے سر میں اٹھتا ہے اور کبھی کبھی پورے سر کو گھیر لیتاہے۔عموماً یہ دورے کی شکل میں شروع ہوتا ہے اور دورہ رفع ہونے کے بعد مریض خود کو پوری طرح صحت مند محسوس کرتاہے۔

بعض لوگوں میں یہ طلوع آفتاب سے قبل شروع ہوتا ہے اور دن بڑھنے کے ساتھ بتدریج بڑھتا جاتاہے اور جوں جوں سورج ڈھلنے کے قریب ہوتاہے،درد کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔بعض لوگوں کو درد کے ساتھ متلی بھی ہوتی ہے اور کبھی قے بھی ہو جاتی ہے۔قے ہو جانے کے بعد درد موقوف ہو جاتاہے یا کمی ہو جاتی ہے ۔اس کے علاوہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجانا ،نظر کا درست نہ رہنا بھی اس کی مخصوص علامات ہیں۔

چونکہ یہ نہایت شدید درد ہے اور اس کی علامات بھی بڑی واضح ہیں،اس لیے اس کی تشخیص میں زیادہ دشواری پیش نہیں آتی اور مریض خود بھی اپنے مرض اور اس کے شروع ہونے کے انداز سے بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔
برطانیہ میں اس مرض کے شکار مریضوں کے اعداد وشمار اکٹھا کیے گئے تو وہاں ہر دسواں آدمی درد شقیقہ میں مبتلا ہے۔اس طرح سے تقریباً پچاس لاکھ لوگ متاثر ہیں اور ان میں سے نصف،کام کرنے والا طبقہ ہے۔
اب اگر موٹاموٹا حساب لگایا جائے کہ ہر مریض نے سال میں ایک دن اس تکلیف کی وجہ سے کام نہیں کیا تو کام کے پچیس لاکھ دن اس مرض کی وجہ سے ضائع ہو گئے۔
یہ بات پورے وثوق سے تو نہیں کہی جاسکتی ،مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ دماغی کام کرنے والے لوگ اس تکلیف کازیادہ ہدف بنتے ہیں۔گویا جن کے رتبے ہیں سِوا،ان کو سِوا مشکل ہے۔
خواتین جن میدانوں میں مردوں سے آگے ہیں،ان میں سے ایک میدان درد شقیقہ کا بھی ہے۔
ایک سروے کے مطابق اگر چار افراد اس مرض میں مبتلا ہوں گے تو ان میں ایک مرد اور تین خواتین ہوں گی۔اس کا بڑا سبب دوران ایام خصوصی ہارمونوں کی پیدائش ہے،اسی لیے اس درد کے دورے عموماً ان خواتین کو زیادہ پڑتے ہیں،جنھیں ایام ٹھیک سے نہ آتے ہوں یا ان کی کثرت ہو۔بچوں کو دودھ پلانے کے زمانے میں بھی درد کے دورے پڑجاتے ہیں۔بعض خواتین شادی کے بعد یا دوران حمل درد شقیقہ سے چھٹکارا حاصل کرلیتی ہیں یا اس کی شدت میں کمی ہو جاتی ہے۔

نوجوانوں میں لڑکے،لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں ،مگر بلوغت کے بعد لڑکیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے،جو بیس برس کی عمر کے بعد خاصی نمایاں ہو جاتی ہے۔
اگر عمر کے لحاظ سے اس مرض کا جائزہ لیا جائے تو یہ دو برس کی عمر کے بچوں میں بھی پایا گیا ہے اور اس کی انتہائی عمر پچاس برس ہے۔پچاس کی عمر کے بعد یہ دیکھنے میں نہیں آیا اور اگر اس طرح کی علامات ملتی بھی ہیں تو وہ کسی اور مرض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
چونکہ پینتالیس برس کی عمر کے بعد ہارمونوں کی پیدائش میں تبدیلیاں رونما نہیں ہوتیں،اسی لیے شاید یہ مرض بھی معدوم ہو جاتاہے۔
اس کی پیدائش کے جو عام اسباب ہیں،ان میں خون کی کمی،عام جسمانی کمزوری ،فاقہ کشی،بد ہضمی ،دائمی قبض ،دماغی حساسیت(الرجی)یا تکان اور تیز چمک دار اور آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والی روشنی شامل ہیں ۔بعض امراض کے نتیجے میں بھی درد شقیقہ شروع ہو جاتاہے۔

مثال کے طور پر امراض گردہ ،نظر کی کمزوری اور نزلہ وزکام کا غلط علاج ،جس سے بلغم خشک ہو کر رک جائے وغیرہ۔بہت سے کنبے ایسے ہیں،جن میں ایک یا ایک سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہیں یا ان کے والدین یا خاندان کے بزرگ بھی اس اذیت میں مبتلا رہے اور ان سے ان کے بچوں میں یہ مرض منتقل ہوا۔
درد کے دورے کی شروعات مختلف لوگوں میں مختلف طریقے سے ہوتی ہے۔
جیساکہ اوپر تحریر کیا گیا ہے کہ غذا میں بے احتیاطی ،دیر تک بھوکے رہنا،جاگنا،زیادہ مشقت یا ذہنی دباؤ کے نتیجے میں درد شروع ہو جاتاہے۔ایک ہی مریض میں ایک یا ایک سے زیادہ اسباب مل سکتے ہیں۔
اگر کسی ڈائری میں اپنی چوبیس گھنٹے کی مصروفیات درج کرلی جائیں تو بار بار دورے پڑنے پر یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہوتا کہ کون سی چیز دورہ پڑتے وقت ہر بار مشترک رہی ہے اور مرض کا سبب بن رہی ہے۔

بعض لوگوں میں ایک سے زیادہ چیزیں مل کر درد کا باعث بن جاتی ہیں اور یہ اندازہ لگانا دشوار ہو جاتا ہے کہ اس میں سے کس چیز سے اجتناب برتا جائے،مگر زیادہ تر جسمانی تکان یا جذباتی دباؤ سے اس کی شروعات ہوتی ہے۔دورہ شروع ہونے سے قبل جو علامات عام طور پر ظاہر ہوتی ہیں،ان میں کمزوری ،سستی ،سرکا بھاری پن اور آنکھوں کے سامنے چنگاریاں سی اڑتی نظر آنا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ اس کی ابتدائی علامات ہیں۔اس کے بعد کنپٹی اور ماتھے کی رگیں تڑپتی ہیں۔سر پھٹتا ہوا محسوس ہوتاہے۔حرکت کر نے ،چھینکنے یا کھانسنے سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں، سر چھونے سے گرم محسوس ہوتا ہے،آواز اور روشنی سے نفرت ہوجاتی ہے،نبض کمزورہوتی ہے ،متلی کا احساس رہتا ہے اورکبھی قے ہو جاتی ہے ۔درد دور ہونے پر مریض کو نیند آجاتی ہے اور سوکر اٹھنے پر وہ خود کو بہتر محسوس کرتا ہے ۔
یہ درد دو تین گھنٹے سے لے کر چوبیس گھنٹے تک اور بعض صورتوں میں دو تین روز تک رہتاہے۔
شقیقہ کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صبح گھر سے نکلتے وقت اطمینان کے ساتھ اچھا ناشتا کریں،صرف چائے یا کافی پر اکتفا کرنا دانش مندی نہیں ہے۔اگرمجبوری کی وجہ سے صبح ناشتا نہ کیا جا سکتا ہوتو دودھ ،پھلوں کا رس یاکوئی اور مناسب چیز کھالی جائے اور دوپہر کاکھانا جلد تناول کیا جائے۔

اسکول جانے والے بچے بھی اکثر جلدی میں ناشتا نہیں کرتے ،جس کی وجہ سے وہ نہ صرف درد شقیقہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں،بلکہ پڑھائی میں بھی پیچھے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ اپنا جیب خرچ بھی چاکلیٹ اور ٹافیوں کی نذر کر دیتے ہیں ،جس کی وجہ سے صحت مزید خراب ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔
غذا سے کس طرح درد شروع ہو جاتاہے ،اس سے ابھی تک پوری طرح واقفیت نہیں ہے،بعض صورتوں میں کسی خاص غذا کا پتا چل جاتاہے،جس کے کھانے کے بعد درد کا حملہ شروع ہو گیا تھا۔
یہ مخصوص غذا سے حساسیت کے نتیجے میں بھی ہو سکتاہے۔بہتریہ ہے کہ جن غذاؤں پر شبہ ہو ،اس کے نام الگ درج کر لیے جائیں اور ان میں سے ایک ایک غذا کو اتنی مدت کے لیے ترک کر دیا جائے،جتنی مدت میں درد کا دورہ پڑتاہے۔اگر اس مدت میں درد کا دورہ نہیں پڑا تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو غذا کا پتا چل گیا۔اس غذا کو مکمل طور پر ترک کر دیجیے اور اگر اس کے چھوڑنے سے کوئی فرق نہ پڑے تو پھر باری باری دوسری غذاؤں کو آزمائیے۔

گرمی وسردی کی شدت بھی درد کے شروع ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔بہت زیادہ ٹھنڈا پانی پینے، نہانے یا تیرنے کے بعد مرض کا حملہ شروع ہو جاتاہے ۔اسی طرح تیز دھوپ میں چلنا پھرنا یا سورج کی چمک کو براہ راست دیکھنے یا اس کے عکس کو پانی ،برف یا شیشے میں دیکھنے سے بھی یہی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔بہت گرم وخشک موسم ،آندھی ،شدید برف باری اور گردوغبار،ان سب کا تعلق درد کے حملے سے ہے۔
مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ موسمی تبدیلیاں براہ راست مرض کا سبب نہ بن رہی ہوں،بلکہ ان سے پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ درد کا موجب بن رہا ہو۔
جدید طریق علاج میں اس مرض کا یقینی تدارک ابھی تک نا معلوم ہے۔دوا کے طور پر بہ کثرت درد ختم کرنے والی ادویہ کھلائی جاتی ہیں ۔ان دواؤں میں قباحت یہ ہے کہ ایک تو یہ وقتی طور پر درد کو کم کر دیتی ہیں۔
دوسرے ایسپرین کے دوسرے مضر اثرات بھی پڑتے ہیں ،خصوصاً ان لوگوں پر ،جن کا ہاضمہ خراب رہتا ہو یا آنتوں سے خون خارج ہوتا ہو۔طب یونانی میں جو ادویہ اس مرض کے لیے کھائی جاتی ہیں ،وہ نہ صرف بے ضرر ہوتی ہیں ،بلکہ اگر انھیں پابندی سے کھا یا جائے تو یقینی نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔

ہمدرد لیبا رٹریز کے شعبہ ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ نے اس تکلیف دہ مرض کو اپنی تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔
طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد”حب شقیقہ“کے نام سے گولیاں تیار کی گئی ہیں اور انھیں تمام لازمی تحقیقی مدارج سے گزارا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ ”حبِ شقیقہ“اس مرض کا آسان ،بے ضررا ور کم قیمت علاج ثابت ہو گئی ہے۔حب شقیقہ2+2اور افتیمونی2+2چائے کے چمچے پانی سے صبح نہار منھ اور سوتے وقت کھانے سے مریض صحت یاب ہورہے ہیں ۔
فی الوقت یہ دواہمدرد کے بڑے مطبوں پر دستیاب ہے،مگر جلد ہی اسے پیک کرکے مارکیٹ میں متعارف بھی کرادیا جائے گا،تاکہ تمام مریضوں کو سہولت کے ساتھ دستیاب ہو سکے۔

درد شقیقہ کے مریضوں کو ذیل میں دی گئی احتیاطی تدابیر پر بھی عمل کرنا چاہیے۔درد شقیقہ شروع ہوتے ہی مکمل آرام بہترین علاج ہے۔وہ لوگ جو آرام دہ ماحول میں لیٹ کر سونے کی کوشش کرتے ہیں ،وہ ان لوگوں کی نسبت جو اپنے روز مرہ کے کام کاج جاری رکھنا چاہتے ہیں ،جلد ہی درد سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔
سر کو آہستہ آہستہ دباتے رہنا بھی اچھا علاج ہے۔اگر آپ ذہنی دباؤ یا تفکرات میں مبتلا ہیں تو انھیں دور کرنے کی کوشش کیجیے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے چہرے اور پیشانی کے عضلات کو ڈھیلاچھوڑ دیجیے،ایک یا دونوں کنپٹیوں پر خون کی رگیں بہت تیز تڑپتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں،انھیں انگلیوں سے اگردبائے رکھاجائے تو سکون ملتا ہے۔تھوڑے تھوڑے وقفوں سے انھیں دبائے رکھنا چاہیے۔

شوروغل ،ڈرائیونگ،سائیکل چلانا اور دوسرے محنت و مشقت کے کام درد کی شدت میں مزید اضافے کا باعث ہوتے ہیں ۔اگر آپ کو درد شقیقہ کے دوران کبھی بھی یہ احساس ہو کہ آپ کی نظر میں فرق پڑ گیا ہے تو ایسی حالت میں باریک اور پر خطر کام ،مثلاً کار وغیرہ نہ چلائیے ،خصوصاً رات میں اگر کار چلاتے ہوئے یہ تکلیف شروع ہو جائے تو بہتر ہے کہ کار پارکنگ کی جگہ پر کھڑی کردی جائے اور سیٹ کو مکمل طور پر پیچھے کر کے آرام دہ بنالیا جائے اور اس وقت تک وہاں آرام کیا جائے،جب تک درد کی شدت کم نہ ہو جائے یا کار چلانے کا کوئی متبادل انتظام نہ ہو جائے۔
اگر ان سب تدابیر پر عمل کرکے آپ اپنے درد شقیقہ پر قابو پا سکیں یا اس کی شدت کو اس حد تک کم کر سکیں کہ وہ آپ کے روزانہ کے معمولات پر اثر انداز نہ ہوتو بہت اچھا ہے ،لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کو اپنے معالج سے رجوع کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے،کیونکہ مرض کا صحیح اور مکمل علاج معالج کے مشورے سے ہی ممکن ہے

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں