گھٹنوں کے بل چلنے والے بچے بیکٹیریا کا شکار ہوتے ہیں اور جوں ہی ان کے مسوڑھے پھولنا اور دانت نکلنے کی عمر آتی ہے تو ماؤں کو اور بھی احتیاط کرنا لازم ہو جاتی ہے گھر کے برتن اور بچے کی دسترس میں موجود اشیاء مثلاً کھلونے صاف ستھرے اور محفوظ ہوں۔یہ بچے مسوڑھوں کی دکھن کے معالج کے لئے اپنی سی تدبیر کرتے ہیں اور ہر چیز منہ میں لے جاتے ہیں اگر یہ نرم کھلونے دھوئے نہ جائیں تو منہ کے راستے کتنے ہی بیکٹیریا بچے کے پیٹ میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
اکثر بچے فطری تجسس کے لئے بھی ہر چیز منہ میں لے جا کر محسوس کرنا چاہتے ہیں جس سے بچوں کو اس فطری عادت سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے مگر وہ اس حرکت سے قطعاً باز نہیں آتے۔باورچی خانے کی ڈسٹ میں اگر ڈھکن والی ہو تو اچھا ہے۔
آپ ڈھکن مضبوطی سے بند کیجئے۔کرولنگ کرتے ہوئے بچہ باروچی خانے میں چلا بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ ڈسٹ بن گرائے گا۔
آپ اس کی نگہداشت یوں کیجئے کہ کسی اونچی جگہ پر یہ ڈسٹ بن رکھ دی جائے تاکہ بچے کی پہنچ سے دور ہو جائے۔کمرے کے فرچ،قارلین یا رگ پر سبزیوں یا پھلوں کے تراشے،بٹن یا دیگر چھوٹی چھوٹی چیزیں رکھی ہیں ہاتھ کے ہاتھ صفائی کرنے اور اشیاء سمیٹنے کی عادت بنا لیں۔
ڈریسنگ ٹیبل پر کاسمیٹکس درازوں میں مقفل کر لیں تو بچہ آپ کی قیمت لپ اسٹک یا نیل پالش خراب نہیں کرے گا۔
لڑکھڑاتے قدموں سے یا گھٹنوں کے بل چلنے والے بچے کو شیشے کے گلاس میں پانی نہ دیں۔ان کے لئے اسٹیل یا پلاسٹک کا گلاس نکالیں۔ظاہر ہے کہ تانبے یا اسٹیل کا گلاس اپنی آواز سے انہیں حیرت زدہ تو کرے گا لیکن اگر وہ اسے فرش پر پٹخ بھی دیتے ہیں تو ان کے زخمی ہونے یا کانچ چبھنے جیسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔بچوں کے ناخن ہر ہفتے تراشیں تاکہ بڑھتے ہوئے ناخنوں میں میل نہ ذخیرہ ہو اور وہ منہ میں انگلیں ڈالیں تو کم سے کم خطرے سے دو چار ہوں۔
کیلے کا چھلکا یا دوسری غلاظت فرش پر نہ رہنے دی جائے۔یہ بیکٹیریا پھیلانے کا سبب بننے والے واقعات ہیں۔
وائرس اور بیکٹیریا سے بچاؤ کے لئے تدابیر
جراثیم کی نوعیت اور جس راستے سے وہ جسم میں داخل ہوں مختلف اشخاص یا بچوں میں مرض کی علامات بھی جداگانہ ہو سکتی ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا متعدی یا چھوت کے امراض میں لوگ یکساں طور پر بیمار نہیں پڑتے،اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر شخص میں علیحدہ درجے اور معیار کی قوت مدافعت پائی جاتی ہے۔
ایک ہی قسم کے وائرس اور بیکٹیریا کسی بچے کو کم متاثر کرتے ہیں کسی کو زیادہ،کچھ بچوں میں قدرتی طور پر مدافعتی نظام زیادہ طاقتور ہوتا ہے ۔ماؤں کو چاہئے کہ کمزور بچوں کی زیادہ نگہداشت کیا کریں۔سکول جانے یا پارک جانے والے بچوں کو بھانت بھانت کے بچوں سے میل ملاپ کرنا ہوتاہے۔اس کے نتیجے میں چھوت کے اثرات کی نوعیت میں بدل جاتی ہے۔عمر جوں جوں بڑھتی ہے۔
بچے کا جسمانی نظام بھی مستحکم ہوتا رہنا چاہئے۔
آپ دیکھ رہیں کہ Covid-19کی وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے بچوں کے سکول اور پارک وغیرہ بند کر دئیے گئے ہیں اب آپ بچوں کے نزلے اور بخار پر بھی اتنی ہی توجہ دیں۔اگر نزلے کے باعث ناک بہہ رہی ہو تو وائرس پورے گھر میں پھیل سکتاہے آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہو گا کہ ایک فرد کو گھر میں نزلہ ہو تو دوسرا اور تیسرا فرد بھی اس کا شکار ہو جاتا ہے۔
احتیاط لازم ہے اور بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔بچوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور اور بروقت لگانے چاہئیں یہی عمل چھوت اور تنفس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔جسم کا اپنا نظام تحفظ کسی بھی مرض سے پہلے عملے کو روکنے کا اہل نہیں ہوتا کیونکہ اینٹی باڈیز کی افزائش اور پرورش جسم کے اندر صرف اسی وقت ممکن ہے جب کسی خاص مرض کے اینٹی جین جسم میں داخل ہوں اور ان کی موجودگی جسم کے دفاعی نظام کو اینٹی باڈیز کی تردید کے لئے وجہ تحریک بن جائے ۔
عام طور پر پھیلنے والی بیماریاں مثلاً نزلہ،زکام اور انفلوئنزا وغیرہ ایسی ہیں کہ انہیں علیحدہ مرض کا نام دینے کے بجائے مجموعی امراض کہا جائے تو زیادہ صحیح ہو گا،کیونکہ ان بیماریوں میں ایک ہی قسم کے بیکٹیریا کا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ متعدد قسم کی بے شمار جاندار اکائیاں ایک ساتھ حملہ آور ہوتی ہیں یہی وجہ ہے نو زائدہ سے 5سال کی عمر تک بچے کی پرورش اور نگہداشت کے لئے حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروانا ضروری ہے۔