آج کل بچوں کے تجرباتی مشاہدے کا طریقہ بہت مقبول ہورہا ہے بچوں کی حرکات اور جذبات کا گہرا مطالعہ کیا جارہا ہے بچوں کے مخصوص مسائل کے مطالعے کے لیے مختلف قسم کے نفسیاتی ادارے اور تجربہ گاہیں قائم ہوچکی ہے آج ساری دنیا بچوں کو صحیح اور مناسب تربیت کے لیے جدید نفسیات کی طرف رجوع کررہی ہے.
بیسویں صدی میں بنی نوع انسان نے بچے کی فطرت جسمانی اور ذہنی نشوونما اور صحیح رہبری کے مسائل پر بڑی محنت کی ہے بچوں میں ہماری دلچسپی برابر بڑھ رہی ہے طفلی نفیسات بچوں کے طرز عمل کے مطالعے میں بیماری صحیح رہنمائی کررہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بچوں کے سائنسی مطالعے میں خاصی ترقی ہوچکی ہے،بچوں کے بارے میں کئی غیر سائنسی نظریے قائم ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بچوں میں نیکی اور بدی کے تصورات پیدائش کے وقت ہی سے موجود ہوتے ہیں اور یہی جبلی اور موروثی خیالات بچے کے کردار کے محرک بنتے ہیں.
اس نظریے کے مطابق تعلیم اور ماحول بچے کی اصطلاح اور تشکیل شخصیت کے لیے بالکل بے بس ہے مگر ایسا نہیں ہے آج کے نامور ماہرین نفسیات اس نظریے کو رد کرچکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پیدائش کے وقت بچے کا ذہن سادہ کاغذ کی طرح ہوتا ہے جس پر وراثت یا موروثی جبلت نہیں بلکہ بچے کے ذاتی تجربات ہی نیکی اور بدی کا علم تحریر کرتے رہیں،نامور برطانوی ماہر نفسیات جان لاک نے بھی بچوں کے ذہنی ارتقا میں ماحول اور تربیت کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اس نے والدین اور اساتذہ کو بچے کی نشوونما کے لیے بہترین ماحول مہیا کرنے کی ترغیب دلائی ہے بچہ بالغ انسان کا ایک چھوٹا سا نچا ہی نہیں بلکہ قدرے ایک مختلف اور آزاد فرد بھی ہے اس کے مرغوب مشاغل اور انفرادی خواہشات بالغوں سے کہیں مختلف ہیں اس کی ننھی شخصیت جذبوں اور امنگوں کی ایک بالکل انوکھی دنیا ہے تعلیم کا مقصد بچے کو محض بالغ زندگی کے لیے تیار کرنا ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ بچے کے موجود ہ تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی مناسب نشوونما بھی ہونے چاہیے
داکٹروں کے نظریہ ابتدائے نوع کا مطالعہ کرنے سے بھی یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ جسمانی زندگی کی طرح بچے کی ذہنی اور معاشرتی نشوونما کے بھی مختلف مدارج ہے بچہ ارتقا کے مختلف زینوں سے باقاعدگی سے گزرتا ہے یہ زینے نسل انسانی کے ارتقا کی مختلف منزلوں کی نمائندگی کرتے ہیں مثال کے طور پر اگر بچے کو اپنی عمر کے کسی دور میں درختوں پر چڑھنا بہت بھاتا ہے تو اس کا یہ طفلانہ شغل نسل انسانی کے اس دور کی یاد دلاتا ہے جب انسان درختوں پر رہا کرتا تھا سیروتفریح کی طرف بچوں کا میلان یا گھر اور سکول سے بھاگنے کی چاٹ گویا ہماری ابتدائی خانہ بدوش زندگی کی جھلک ہے بچوں میں بڑے بڑے پتوں کے لباس پہننے کا شوق اور آنکھ مچولی وغیرہ کے کھیل نسل انسانی کی ابتدائی شکاری اور بندوقوں سے جھوٹ موٹ کی لڑائی اور مار دھاڑ کے طفلانہ کھیل بھی ہماری قدیم زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں